
گل گلزار ہُوا کرتے ہیں
پھول خوشبودار ہُوا کرتے ہیں
کبھی یہ سمجھ کر پیار مت کرنا یارو
کہہ سبھی وفادار ہُوا کرتے ہیں

ﻣﺪﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﻣﺠﮭﮯ
ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺴﺎﻁ ﺗﮭﯽ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺭﮎ ﮔﺌﯿﮟ...!

روز دہراتے تھے افسانۂ دل
کس طرح بھول گیا یاد نہیں

تو اگر بے نقاب ہو جائے زندگانی شراب ہو جائے
تو پلائے جو مست نظروں سے مےء کشی لا جواب ہو جائے

سر سے پاؤں تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
باوضو ہوتے ہوۓ بھی چھوتے ہوۓ ڈر لگتا ہے